مولانہ طارق جميل صاحب فرماتے ہيں ايک روز ميں سڑک کے کنارے جارہا تھا تو ميں نے سامنے ديکھا کہ ايک ريڑھي والا بزرگآرہا ہے سفيد کپڑے پہنے چہرے پہ معصوميت ليئے جب وہ ميرے قريب سے گزرا تو ميں نے ديکھا کہ اس نے ريڑھي پر ايک پيٹي رکھي ھوئي ہے--- ميں نے اسکي طرف پيار سے مسکرا کے ديکھا تو اچانک اس بزرگ کي آنکھوں سے آنسو بہ نکلے-- ميں حيران ہوااور قريب جا کر پوچھا بزرگو سب خير تو ہے--- تو اس نے ريڑھي پر رکھي ہوئي پيٹي الٹ دي-- کيا ديکھتا ہوں کہ اس پيٹي ميں سيب موجود ہيں-- اوپر والي تہہ ٹھيک باقي سارے سيب گلے سڑے ہيں---
وہ بزرگ بولا جناب ميں بہت غريب ہوں-- دن ميں ايک پيٹي خريدتا ہوں شام کو بيچ کر بچوں کيلئے تازہ کھانا لے کر جاتا ہوں-- آج کسي نے ميرے بچوں کي روزي مار لي----
زرا سوچئيے---
پيٹي ميں سيب بھرنے والا آصف ذرداري تھا؟؟ نواز شريف تھا؟؟ عمران خان تھا؟؟ کوئي ايم پي اے تھا؟؟
نہيں وہ ايک عام مزدور پاکستاني تھا----
جہاں اپنے اپنوں کے دشمن ہوں اس ملک کو امريکہ کي دشمني سے کيا فرق پڑتا ہے؟؟
ہم باتيں تبديلي کي کرتے ہيں-- گالياں حکمرانوں کو ديتے ہيں--- ليکن ہمارا اپنا گريبان کس لئے ہے؟؟؟
0 comments:
Post a Comment